OK, I agree this photo is not interesting. But it is important to me in several ways. I tell you why.
First, this is probably my first-ever photo of a train. Secondly, its a candid shot. I was traveling by car to Dera Ismail Khan, my hometown from Islamabad, for the Eid vacation. Somewhere near Mianwali, a railway crossing was closed for road traffic and we had no option but to wait. I asked the staff how long would it take for the train to be here. They weren’t sure and said it could take 5-10minutes. I quickly grabbed my camera and tripod and sat a couple of feet away from the track itself. The train arrived earlier than expected though.
While I was setting up the camera, I had no idea what to focus and what shutter speed to use. It was very dark too (look at the exif data, a 10 sec shutter speed coupled with ISO 800 and EV set to +2). Anyway once the far away light seemed big enough, I pressed the shutter button. It turned out to be a good time as the train came right after that and the shutter remained opened a little while after the train passed. Thirdly, I have, since long, a burning desire to photograph abandoned trains. Though this wasn’t the case here yet the the low light, the candidness, the joy of doing it first time combined with the eagerness to check the results, all made it a very interesting thing to do.
One a side note, it was a stupid thing to sit so close to the track. The chilly air full of dust blew straight into my face and I had to press the camera firmly on to the ground to avoid it tilting over from the wind and shaky ground. Also, thanks God nothing was sticking out of the train itself as I had my head down to avoid the tiny gravel brushing up my face and I was nevertheless blinded by its headlamp too.
Anyway, I am happy with the result. 🙂
Ah yes, the title came into my mind as you cant see the train itself here. Have a look at this too 😉
ٹھیک ہے، مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ یہ تصویر اتنی دلچسپ نہیں ہے۔ لیکن میرے لئے یہ خاصی اہم ہے۔ بتاتا ہوں کیوں۔
پہلی بات تو یہ کہ یہ تصویر غالباً میری کیس بھی ریل گاڑی کی پہلی تصویر ہے۔ دوسرے، یہ تقریباً فی البدیہہ ہے۔ میں اسلام آباد سے عید کی چھٹیاں گزارنے بذریعہ کار اپنے آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان جا رہا تھا کہ میانوالی کے قریب ریلوے پھاٹک بند ملا۔ انتظار کے سوا چارہ نہ تھا۔ میں نے وہاں موجود عملے سے پوچھا کہ ریل گاڑی کب تک یہاں سے گزر جائے گی لیکن وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ انکا خیال تھا کہ 5-10 منٹ لگیں گے۔ میں نے اپنا کیمرہ اور ٹرائے پاڈ اٹھایا اور پٹڑی سے چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھ گیا۔ ریل گاڑی اندازے کے برعکس جلد ہی وہاں پہنچ گئی۔
کیمرہ سیٹ کرتے ہوئے مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ عدسے کو کہاں فوکس کروں اور شٹر سپیڈ کیا رکھوں۔ اس پر طرہ یہ کہ بے انتہا اندھیرا تھا (جسکا اندازہ آپکو تصویر کا ایگزف ڈیٹا دیکھ کر ہی ہو جائے گا، یعنی 10 سیکنڈ کے شٹر کے باوجود 800 کا آئی ایس او اور +2 کا ایکشپوژر)۔ بہرحال جب ریل کی بتی کچھ قریب نظر آئی تو میں نے بٹن دبا دیا۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوا کیونکہ جلد ہی ریل گاڑی وہاں سے گزرنے لگی اور اسکے گزرنے کے چند لمحوں بعد شٹر بند ہوا۔ اس سب کہانی کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ مجھے متروکہ ریل گاڑیوں کی تصاویر بنانے کا عرصے سے شوق ہے۔ یہ تو بہر حال متروکہ نہیں تھی لیکن اسکے باوجود بھی کم روشنی، فی البدیہہ تصویر، پہلی بار کی خوشی اور نتایئج دیکھنے کی بیقراری، سب نے مل کر اس تصویر کو میرے لئے خاصا دلچسپ بنا دیا ہے۔
ویسے بعد میں مجھے احساس ہوا کہ پٹڑی کے اتنے قریب بیٹھنا انتہائی بچگانہ حرکت تھی۔ ریل گاڑی کے پہنچتے ساتھ ہی میرے چہرے پر مٹی کے سنگریزوں سے بھر پور انتہائی ٹھنڈی ہوا ٹکرائی۔ میں نے ایک طرف تو چہرہ چھپایا اور دوسری طرف کیمرے کو مضبوطی سے پکڑے رکھا کہ کہیں تیز ہوا اور کانپتی زمین سے وہ بھی زمین بوس نہ ہو جائے۔ اللہ کا شکر کہ ریل گاڑی کے دروازوں سے کوئی چیز یا شخص لٹکا ہوا نہیں تھا ورنہ چہرے پر سیدھے پڑنے والی روشنی نے تو آنکھوں کے ویسے ہی چندھیا دیا تھا اور پھر میں نے ہوا اور مٹی سے بچنے کیلئے چہرہ بھی نیچے کر لیا تھا۔
بہرحال میں نتیجے سے خوش ہوں۔
ارے ہاں، تصویر کا عنوان اس مناسبت سے رکھا ہے کہ پوری تصویر میں ریل گاڑی تو کہیں نظر نہیں آ رہی۔